Saturday, March 22, 2014

تنہائی:ایک نظم

تنہائی ::: ایک نظم 

-------------------------
تنہائی
عجیب شے ہے یہ

تنہائی
ماضی کے دہلیز پہ دستک دے کر
کھول دیتی ہے دروازے تمام
اور یادوں کا سیلاب بھر جاتا ہے
ذہن کے گلیارے میں

تنہائی
 کبھی کبھی مستقبل کے دریچے بھی کھولتے ہے
اور ہماری نگاہیں دیکھتی ہیں
آنے والے لمحوں کی اجنبی سی تصاویر
تنہائی
کیا واقعی ہوتی ہے کبھی تنہا
شاید نہیں
کبھی كھيالو کا سمندر
کبھی تصور کے لامهدود سلسلے
کبھی درد کہ محفل
اور کبھی یہ لے کر آتی ہے ارمانوں کی بارات

تنہائی کی موذودگي اکثر مهكتي ہے
وسال - اے - یار کے بچے كھچے خوشبو سے
اور کبھی جلے ہوئے ادھورے خواب کہ بو سے
تنہائی کا ذايكا
کبھی ہوتا ہے محبت کہ سرگوشيو کی مٹھاس کی طرح
تو کبھی یہ پرانے تلخ الفاظ کی كرواهٹ لئے بھی ہوتا ہے
تنہائی
اگر سچ مچ تنہا ہو
تنہائی اگر واقعی آزاد ہو
گزرے ہوئے کل کے دستانو سے
تنہائی اگر واقعی آزاد ہو
آنے والے کل کے سوالو سے
تنہائی اگر نکل آئے
خوشی و غم کے دائرے سے
تنہائی اگر نکل جائے
امید اور مایوسی کے دلدل سے
تو یہ تنہائی سفر بن جاتی ہے
خدي کا سفر
 اس خدي کے سفر میں
ہم ناپتے ہیں سانسوں کہ رفتار
ہم اترتے ہیں احساس کے زینے سے
اپنے دل کے صحن میں
اور دیکھتے ہیں
ضمیر کے آئینے میں
خود کو اكش
ایسی ہی تنہائی شکل لے لیتی ہے
عبادت کا
اور ہمیں دیدار کرتی ہے
الانوار - اے - الہی کا

ذرا سوچ کر دیکھو
کیا ہوگا
اگر تنہائی
خود ہو جائے
تنہائی کا شکار

No comments: