Sunday, January 01, 2017

Dahleez se kothe Tak (EK NAZM )


دہلیز سے کوٹھے تک  
-----------------------
میں سوچتی ہوں اکثر
جی بی روڈ کے ایک  کوٹھے پے  بیٹھ کر
اور جب یادوں کا  حزوم داخل ہوتا ہے
میرے خیالوں کے آنگن میں
میری  افسردہ  آنکھیں آلودہ ہوجاتی ہیں
میرے لب  لرزاں ہیں فریادوں سے


یاد ہے مجھے  چاندنی چوک کی  ہر صبح  
 جب میں اٹھ جایا کرتی تھی ، اس  سے  پہلے
کہ  جامع مسجد کے مینارے سے  مؤذن  
فضر کے نماز کی دعوت دے مومنوں کو
میں جگ جاتی  تھی اپنے نیند کو ادھورا چھوڈ کر
اس سے پہلے کہ  خورشید اپنی چمکیلی شمشیر سے
 رات  کے سیاہ  دامن  کو چاک  چاک کر دے  


پھر دن بھر کہاں یاد رہتا تھا کہ وقت کیسے بیتا
اور پھر دوپہر کے بعد شام کیسے ہیئ
جسم میرا کسی ٹوٹے  مشین کی طرح ہو جاتا تھا
جیسے پرجا پرجا الگ ہونے  پے  آمادہ ہو


پھر بھی تم کو  گھر لوٹتا دیکھ کر
بھول جاتی اپنی ساری  تھکن
اور لگ جاتی تمہاری ہر طرح کی بھوک
مٹانے میں ، جسمانی، جذباتی اور جنسی
   اور جب تم خوابیدہ ہو جاتے تھے تو  
میں بھی لیٹ  جاتی تھی وہیں  تمہارے  پاس
مختصر سی نیند کے واسطے
وہ  نیند جو خوابوں سے محروم ہوا کرتی تھی


یہ سلسلہ نہ جانے کتنےسالو تک  چلتا رہا
اتوار ہو یا جمعہ  ، عید ہو یا محرم
مجھے کبھی چھٹی نہیں ملتی
مجھے کبھی وقفہ نہیں ملتا
لیکن   کبھی شکوہ نہیں کیا
نہ کبھی کوئی سوال کیا میں نے
 


وقت نے  رفتہ رفتہ   میرے چہرے پر  لکیریں کھینچ دی تھی
اور میرے گیسو پرخم میں سفیدی کا عکس آنے لگا تھا   
تبھی تم نے وہ بڑا فیصلہ سنا دیا تھا ، ایک دن اچانک
تمہارے وہ  تین الفاظ میرے لئے سزا کا اعلان تھا   
قصور کیا تھا میرا، کچھ بھی  نہیں
میں نے پوچھا تھا ، پر تم خاموش رہے تھے


پھر میں فریاد لیکر گیئ  تھی دین  کے رکھوالوں کے پاس
لیکن انہوں کہا  انکے پاسس کوئی حل نہیں ہے
عدالت کے چوکھٹ پی بھی میں ںے دستک  دی  
اور منصف نے کہا   کی میرا   مذہب   انھیں    
میرے حق میں انصاف کرنے کی  اجازت نہیں دیتا
اگر اس نے انصاف کیا تو خفا ہو جاینگے کروڑو لوگ


مایوس تھی میں، مرنا  چاہتی تھی ، لیکن ایسا نہیں ہوا
لیکن جینے کے لئے کچھ تو کرنا تھا
میرے پاس دو چیزیں تھی بچنے کے لئے ، ضمیر اورعصمت
میں نے اپنے ضمیر کو محفوظ رکھ لیا اور جسم کو نیلامی پی لگا دی
اور اس طرح  میں   دہلیز سے اس  کوٹھے پہ   پہنچ  گیئ


اس در پے  مجھے پناہ ملا جب سب نے ٹھکرا دیا تھا
یہاں میرے ٹوٹے جسم کی  اچھی قیمت  بھی میلی  


بس اپنے چہرے کی لکیروں کو میک اپ سے   ڈھکنا پڑا  
اور زلفوں  کی سفیدی کو سیاہ کرنا    پڑا  خضاب سے


لیکن اس اپنی  روح  کی  درد کا کیا کروں میں
کون سا میک اپ استمال کروں اسے  چھپانے  کے لئے
دل کے  زخموں کی لالی کو کیسے پوشیدہ کروں
کیا کوئی خضاب ہے جو میرے دل کے داغوں کو  رنگ سکے   


ہمیشہ بس خدا سے اتنا  ہی پوچھتی رہتی ہوں میں
میرے  مولا اس جہاں میں عورت ہونا گناہ  کیوں ہے  
      
ABDULLAH KHAN