اپنے سوالوں کا جواب مانگتی ہے
زندگی ہر سانس کا حساب مانگتی ہے
ہوش میں رہنا ممکن نہیں اب
اس لئے ساقی سے وہ شراب مانگتی ہے
سہرا سے مانگتی ہے وہ بہار کا وعدہ
اور اجڑے چمن سے گلاب مانگتی ہے
نیند تو میسر نہیں ہوا اسے اب تک
میری بیدار آنکھیں اب ایک خواب مانگتی ہیں
میرے پاس تو چند ٹوٹے ستارے بچے ہیں 'عبد'
لیکن وہ تو اکثر ماھتاب مانتی ہے
No comments:
Post a Comment